رشوت کا شرعی حکم اور اس کی وعیدیں
📬 رشوت کا لینا دینا دونوں حرام ہیں اور لینے دینے والے دونوں جہنمی ہیں، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’رشوت لینا مطلقًا حرام ہے ،جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے (وہ) رشوت ہے یونہی جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے لیکن اپنے اوپر سے دفعِ ظلم (یعنی ظلم دور کرنے) کے لئے جو کچھ دیاجائے (وہ) دینے والے کے حق میں رشوت نہیں ،یہ دے سکتا ہے، لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اسے لینا حرام۔
*(فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۹۷)*
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’رشوت لینا مطلقاً گناہِ کبیرہ ہے ،لینے والا حرام خوار ہے، مستحقِ سخت عذابِ نار ہے، دینا اگر بمجبوری اپنے اوپر سے دفعِ ظلم کو ہو تو حرج نہیں اور اپنا آتا وصول کرنے کو ہو تو حرام ہے اور لینے دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور دوسرے کا حق دبانے یا اور کسی طرح ظلم کرنے کے لئے دے تو سخت تر حرام اور مستحق اَشَد غضب و اِنتقام ہے۔
*(فتاوی رضویہ، ۱۸ / ۴۶۹)*
اَحادیث میں رشوت لینے ،دینے والے کے لئے شدید وعیدیں بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے 3 احادیث درج ذیل ہیں :
*(1)* حضرت ابوحمید ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک شخص کو بنی سُلَیم سے زکوٰۃ وصول کرنے پر عامل مقرر کیا جسے اِبْنِ لُتْبِیَہ کہا جاتا تھا۔ جب اس نے آ کر حساب دیا تو کہا: یہ آپ کا مال ہے اور یہ میرا تحفہ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اچھا! تم اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھے رہتے اور دیکھتے کہ تمہارے لئے (وہاں سے) کتنے تحفے آتے ہیں اور تم اپنے بیان میں کتنے سچے ہو۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے ہم سے خطاب کیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا:
’’جب میں تم میں سے کسی کو کسی جگہ کا عامل بناتا ہوں جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے تو وہ میرے پاس
اکر کہتا ہے :یہ آپ کا مال ہے اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے تحفۃً دیا گیا ہے۔ یہ کیوں نہ کیا کہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا رہتا یہاں تک کہ ا س کے پاس تحفے آتے۔ خدا کی قسم! تم میں سے جو کوئی بغیر حق کے کسی چیز کو لے گا وہ اسے اٹھائے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔ میں اچھی طرح پہچانتا ہوں کہ جب تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا تو اس نے اونٹ اٹھایا ہو ا ہو گا جو بلبلاتا ہو گا یا گائے جو ڈگراتی ہو گی یا بکری جو ممیاتی ہو گی۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا دستِ مبارک بلند فرمایا یہاں تک کہ بغل کی سفیدی نظر آنے لگی اور کہنے لگے :اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، کیا میں نے (تیرا حکم) پہنچا دیا ؟
*(بخاری، کتاب الحیل، باب احتیال العامل لیہدی لہ، ۴ / ۳۹۸، الحدیث: ۶۹۷۹)*
*(2)* حضرت عبداللہ بن عمر و رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں
*۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۵۵۰، الحدیث: ۲۰۲۶)*
*(3)* حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جو گوشت سُحت سے پلا بڑھا تو آگ اس کی زیادہ حق دار ہے۔ عرض کی گئی :سُحت سے کیا مراد ہے؟ ارشاد فرمایا: فیصلہ کرنے میں رشوت لینا۔
*(جمع الجوامع، قسم الاقوال، حرف الکاف، ۵ / ۳۹۱، الحدیث:۱۵۹۰۴)*
No comments:
Post a Comment