*انبیاء کرام اولیاء اللہ کی قبر سے بھی برکت حاصل ہوتی ہیں حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات اور تدفین:*
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے والد ماجد کے بعد 23 سال زندہ رہے، اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ہوئی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقامِ دفن کے بارے میں اہلِ مصر کے اندر سخت اختلاف واقع ہوا، ہر محلہ والے حصولِ برکت کے لئے اپنے ہی محلہ میں دفن کرنے پر مُصر تھے، آخر یہ رائے طے پائی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دریائے نیل میں دفن کیا جائے تاکہ پانی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر سے چھوتا ہوا گزرے اور اس کی برکت سے تمام اہلِ مصر فیض یاب ہوں چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سنگِ رِخام یا سنگِ مرمر کے صندوق میں دریائے نیل کے اندر دفن کیا گیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہیں رہے یہاں تک کہ 400 برس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تابوت شریف نکالا اور آپ کو آپ کے آبائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ملکِ شام میں دفن کیا۔ *(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۵۴۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۴۷، ملتقطاً)*
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے والد ماجد کے بعد 23 سال زندہ رہے، اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات ہوئی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقامِ دفن کے بارے میں اہلِ مصر کے اندر سخت اختلاف واقع ہوا، ہر محلہ والے حصولِ برکت کے لئے اپنے ہی محلہ میں دفن کرنے پر مُصر تھے، آخر یہ رائے طے پائی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دریائے نیل میں دفن کیا جائے تاکہ پانی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قبر سے چھوتا ہوا گزرے اور اس کی برکت سے تمام اہلِ مصر فیض یاب ہوں چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سنگِ رِخام یا سنگِ مرمر کے صندوق میں دریائے نیل کے اندر دفن کیا گیا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وہیں رہے یہاں تک کہ 400 برس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تابوت شریف نکالا اور آپ کو آپ کے آبائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس ملکِ شام میں دفن کیا۔ *(مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ص۵۴۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۴۷، ملتقطاً)*
No comments:
Post a Comment